11th Class Urdu Notes (Full Syllabus)
11th Class (F.Sc. Part I / Intermediate Part I / F. A. ) Urdu MCQs:
- مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں۔
- i)
- وہ کونسا آزمودہ مقولہ ہے جس میں انسانوں اور قوموں کا تجربہ جمع ہے؟
- ii)
- سر سید کے خیال میں کون سی قوم ذلیل و بے عزت ہو جاتی ہے؟
- iii)
- نیچر کا قاعدہ کیا ہے؟
- iv)
- قومی ترقی کن خوبیوں کا مجموعہ ہے؟
- v)
- بیرونی کوشش سے برائیوں کو ختم کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
- vi)
- سر سید کے خیال میں اصلی غلام کون ہے؟
- vii)
- دُنیا کی معزز قوموں نے کس خوبی کی وجہ سے عزت پائی؟
- viii)
- ولیم ڈراگن کے اُصول کا مفہول بیان کیجیے۔
- ix)
- کون سی خوبی انسان کو معزز اور قابل بناتی ہے؟
- x)
- کیا سر سید خطوں کے جواب باقاعدہ دیتے تھے؟
- xi)
- کیا سر سید کو مہمانوں کی آمد ناگوار گزرتی تھی؟
- xii)
- سر سید کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو کیا تھا؟
- xiii)
- سر سید راست بازی کو کیا سمجھتے تھے؟
- xiv)
- سر سید کا دوستوں سے برتاوٴ کیسا تھا؟
- xv)
- سر سید کو کونسا پھل پسند تھا؟
- xvi)
- سر سید کھانے کے بعد عموماً کیا پیتے تھے؟
- xvii)
- سر سید نے مطالعے کی عادت کب سے اپنائی؟
- xviii)
- سر سید نے خطباتِ احمدیہ کتنی مدت میں لکھی؟
- xix)
- کون سی بات سر سید کو سب سے زیادہ ناگوار گزرتی تھی؟
- xx)
- ابوالقاسم زھراوی کی مشہور تصنیف کا کیا نام ہے؟
- xxi)
- ڈاکڑ لی کارک نے اس کتاب کا کس زبان میں ترجمہ کیا؟
- xxii)
- زھراوی کس یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم رہے؟
- xxiii)
- زھراوی کی مشہور تصنیف کس یونیورسٹی میں داخلِ درس رہی؟
- xxiv)
- زھراوی کے عہد میں مغرب کی عظیم ترین یونیورسٹی کونسی تھی؟
- xxv)
- قمر صاحب نے اپنے ہنسنے کے بارے میں کیا کہا؟
- xxvi)
- قمر صاحب رئیس کے ہاں کیسے کپڑے پہن کے گئے؟
- xxvii)
- قمر صاحب رئیس کے ہاں جاتے وقت کن لوگوں سے ملے؟
- xxviii)
- قمر صاحب نے کارڈ مانگنے پر کیا کہا؟
- xxix)
- قمر صاحب نے انگریزی ادب کے بارے میں کیا کہا؟
- xxx)
- قمر صاحب نے لکھنے پڑھنے کے کام کو عبادت کیوں کہا؟
- xxxi)
- افسانہ نگار نے اس افسانے کا نام “ادیب کی عزت ” کیوں رکھا؟
- xxxii)
- مٹر گشت کرنے والے نوجوان کا ظاہری حلیہ کیسا تھا؟
- xxxiii)
- افسانہ “اوور کوٹ ” میں اوور کوٹ کن خصوصیات کا حامل تھا؟
- xxxiv)
- نوجوانوں کے اوور کوٹ کے علاوہ کیا کچھ زیب تن کر رکھا تھا؟
- xxxv)
- نوجوانوں کے اوور کوٹ کی جیب سے کون کونسی چیزیں برآمد ہوئی؟
- xxxvi)
- افسانہ نگار نے “اوور کوٹ” میں کن سڑکوں کا زکر کیا؟ان کے نام لکھیے۔
- xxxvii)
- اس افسانے میں انگریزی زبان کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کے معنی لکھیے۔
- xxxviii)
- سفارش کرنے والے نے فیکے کی موجودگی میں ڈاکڑ جبار کو کب فون کیا؟
- xxxix)
- سفارش کرے والے نے اپنے نوکر کو کیوں ڈانٹا؟
- xl)
- فیکے نے عمر بھر مصنف کا نوکر رہنے کا اعلان کیوں کیا؟
- xli)
- اچھن کس بیماری میں مبتلا تھی؟
- xlii)
- اچھن کا باپ کیا کام کرتا تھا؟
- xliii)
- دوکان کے مالک نے منشی جی کو روپے کیوں دے دیے؟
- xliv)
- اچھن کے لہجے میں کس بات کی آرزو اور خوشامد تھی؟
- xlv)
- اچھن کے ابا نے یہ کیوں کہا کہ میں بیڑی نہیں پیوں گا؟
- xlvi)
- اس افسانے میں ہمارے کس معاشرتی رویے پر تنقید کی گئی ہے؟
- xlvii)
- غالب نے میرٹھ کا سفر کیسے طے کیا؟
- xlviii)
- نواب مصطفٰی خاں دوست کے ہاں کیوں ٹھہرے ؟
- xlix)
- ١۸۵۹ء میں حکمِ حاکم کی بابت غالب نے اپنے شعر میں کیا کہا؟
- l)
- ہر گول پال تفتہ کے نام خط میں مذکورہ تلمیح کی وضاحت کریں۔
درج ذیل عبارت کی تلخیص کیجئے اور مناسب عنوان بھی تحریر کیجئے۔
i) محمد رسولﷺ کا وجود مبارک ایک آفتاب عالم تاب تھا جس سے اونچے پہاڑ ،ریتلے میدان،بہتی نہریں ، سرسبز کھیت،اپنی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق تابش اور نور حاصل کرتے تھے یاابرباراں تھا،جو پہاڑ اور جنگل،میدان اور کھیت،ریگستان اور باغ ہر جگہ برستا تھااور ہر ٹکڑا اپنی اپنی استعداد کے مطابق سیراب ہو رہا تھا،قسم قسم کے درخت اور رنگا رنگ پھول اور پتے جم رہے تھے اور اُگ رہے تھے۔
ii) بادشاہ ہو یا گدا،امیر ہو یا غریب ،حاکم ہو یا محکوم، قاضی ہو یا گواہ،افسر ہو یا سپاہی،استاد ہو یا شاگرد ،عابدوزاہدہو یا کارو باری،غازی ہو یا شہید،توحید کا نور، اخلاص کی روح،قربانی کا ولولہ،خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور بلآخر ہر کام میں خدا کی رضا طلبی کا جوش ہر ایک کے اندر کام کر رہا ہےوہ جو کچھ بھی ہو، جہاں بھی ہو ،یہ فیضانِ حق سب میں یکساں اور برابر تھا۔
iii) ایسی کامل و جامع ہستی جو اپنی زندگی میں ہر نوع اور ہر قسم ، ہر گروہ اور ہر صنف انسان کے لیے ہدایت کی مثالیں اور نظریں رکھتی ہو، وہی اس لائق ہےجو انواع سے بھری ہوئی دنیا کی عالم گیر اور دائمی رہنمائی کا کام سر ایجام دے،جو غیظ و غضب اور رحم و کرم م جو دوسخا اور فقروں فاقہ ،شجاعت و بہادری اور رحم دلی رقیق القلبی دنیا اور دین دونوں کے لیے ہمیں اپنی زندگی کے نمونوں سے بہرومند کر دے،جو دنیا کی بادشاہی کے ساتھ آسمان کی بادشاہی اور آسمان کی بادشاہی کے ساتھ دنیا کی بھی بشارت دےاور دونوں بادشاہوں کے قوانین اور دستور العمل کو اپنی زندگی میں برت کر دکھائے۔
iv) انسان کی قومی ترقی کی نسبت ہم لوگوں کے یہ خیال ہیں کہ کوئی خضر ملے۔گورنمنٹ فیاض ہو اور ہمارے سب کام کردے۔اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر چیز ہمارے لیے کی جاوے اور ہم خود نہ کریں۔یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اگر اس کو ہادی اور رہنما بنایا جاوے تو تمام قوم کی دلی آزادی کو برباد کردے اور آدمیوں کو انسان پرست بنا دے۔ حقیقت میں ایسا ہونا قوت کی پرستش ہے اور اس کے نتائج انسان کو ایسا حقیر بنا دیتے ہیں کہ صرف دولت کی پرستش سے انسان حقیر و ذلیل ہو جاتا ہے۔
v) بڑا سچا مسئلہ اور نہایت مضبوط جس سے زیادہ دنیا کی معزز قوموں نے عزت پائی ہےوہ اپنی مدد آپ کرنا ہے۔ جس وقت لوگ اس کو اچھی طرح سمجھیں گے اور کام میں لاویں گے تو خضر کو ڈھونڈنا بھول جاویں گے۔ اوروں پر بھروسے اور اپنی مدد آپ ، یہ دونوں اصول ایک دوسرے کے با لکل مخالف ہیں۔ پچھلا انسان کی بدیوں کو برباد کرتا ہے اور پہلا خود انسان کو۔
vi) ساہیوال بورڈ 2014 ء (پہلا گروپ) لاہور بورڈ 2012ء (دوسرا گروپ) تمام تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ کسی ملک کی خوبی و عمدگی اور قدرومنزلت بہ نسبت وہاں کی گورنمنٹ کے عمدہ ہونے کے زیادہ تر اس ملک کی رعایا کے چال چلن ،اخلاق و عادت ،تہذیب و شائستگی پر منحصر ہے، کیونکہ قوم شخصی حالتوں کا مجموعہ ہے اور ایک قوم کی تہذیب در حقیقت ان مرد و عورت و بچوں کی شخصی ترقی ہے۔جن سے وہ قوم بنی ہے۔
vii) ایک نہایت عاجز و مسکین غریب آدمی جو اپنے ساتھیوں کو محنت اور پرہیز گاری اور بے لگاؤ ایمانداری کی نظیر دکھاتا ہے، اس شخص کا اس کے زمانہ میں اور آئندہ زمانے میں اس کے ملک ، اس کی قوم کی بھلائی پر بہت بڑا اثر پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی زندگی کا طریقہ اور چال چلن کو معلوم نہیں ہوتا مگر اور شخصوں کی زندگی میں خفیہ خفیہ پھیل جاتا ہے اور آئندہ کی نسل کے لیے ایک عمدہ نظیر بن جاتا ہے۔
viii) یہ علم و ہ علم ہے کہ جو انسان کو اپنے فرائض ادا کرنے اور دوسروں کے حقوق محفوظ رکھنے اور زندگی کے کاروبار کرنے اور اپنی عاقبت کے سنوارنے کے لائق بنا دیتا ہے۔ اس تعلیم کو آدمی صرف کتابوں سے نہیں سیکھ سکتا۔ اور نہ یہ تعلیم کسی درجے کی علمی تحصیل سے حاصل ہوتی ہے۔مشاہدہ آدمی کی زندگی کو درست اور اس کے علم کو باطل یعنی اس کے برتاؤ میں کر دیتا ہے علم کی بہ نسبت عمل اور سوانح عمری کی بہ نسبت عمدہ چال چلن آدمی کو زیادہ تر معزز اور قابل ادب بنا تا ہے۔
ix) ٍٍسیر چشمی کا فراغ حوصلگی سر سید کے خاص اوصاف میں سے تھے۔ انھوں نے اپنی کمائی میں سے نہ کبھی مال جمع کرنے کا ارادہ کیا ار نہ اولاد کے لیے جائیداد خریدی بلکہ جو کچھ کمایا اس کویا اپنی ضروری آسائش اور سچی عزت اور نیک نامی کے ذرائع میں صرف کیا، یا کنبے کی خبر گیری ، مستحقوں کی امداد کی،اولاد کی تعلیم ،ملک ور قوم کی بھلائی اور مذہب کی حمایت میں اٹھایا۔
x) عفود اغماض ان کی سرشت میں داخل تھا۔ مگر ان کی ابتدائی روک ٹوک اور حسن ترتیب سے یہ تمام ملکات ان کی طبیعت میں اور زیادہ راسخ ہوگئے تھے۔ نیک اور عاقل ماں نے بیٹے کے دل میں یہ بات ڈالی تھی کہ سب سے بہتر تو یہ ہے کہ بڑوں کی برائی سے با لکل درگزر کی جائے اور اگر بدلہ ہی لینے کا خیال ہو تو اس بڑے اور زبردست انتقام لینے والے کے انصاف پر چھوڑ دینا چاہیے۔ کسی لڑکپن میں یہ سبق پڑھایا تھا کہ برائی کرنے والوں کے ساتھ برائی کرنا خود اپنے آپ کو ویسا ہی بنانا ہے۔
xi) راست بازی اور وہ تمام اوصاف جو ایک راست باز آدمی میں ہونے لازمی ہیں جیسے صدقِ مودت ، حمیت، دلیری اور آزادی وغیرہ اس شخص کی خصوصیات میں سےتھے۔اس شخص نے اگر سچ پوچھیےتو اپنی آزادانہ تحریرں سےآذادی اورسچائی کی بنیاد ڈال دی۔ اس نے لوگوں کو مجبور کیا کے سچ بات کہنے میں کسی کی طعن ملامت سے نہ ڈریں۔
xii) موجودہ زمانے میں علمِ علاج کے جو دو طریقے یعنی علاج بالدوا(میڈیسن) اور علاج بالجراحت(سرجری) ہسپتالوں میں مروجہ ہیں، ان کے متعلق یہ خیال عام ہے کہ اگرچہ مغربی طب ،یعنی ایلوپیتھی دیسی طب کا ہی چربہ ہے،مگر جراحت،یعنی سرجری خاص مغربی ڈاکٹروں کی چیز ہے جن میں کوئی ا ن کاہم سر نہیں ہے۔لیکن اس خیال کے پھیلنے کی وجہ محض یہ ہے کہ کہ ہمارے اسلامی دور کے عظیم سرجن ابوالقاسم کے نام اور اس کے کارناموں سے واقف نہیں، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ زھراوی ہی وہ عظیم شخصیت ہے جس نے اہلِ یورپ کو سرجری کے فن سے روشناس کروایا۔
xiii) اب تم کو کیسے سمجھاوٴں۔ہر شخص کے دم میں اعزازواحترام کی بھوک ہوتی ہےتم پوچھو گی یہ بھوک کیوں ہوتی ہے اس لیے کہ یہ ہماری روح کے ارتقاء کی ایک منزل ہے۔ ہم اس عظیم الشان طاقت کا لطف حصہ ہیں جو ساری دنیا میں حاضرو ناظر ہے۔ جزو میں کل کی خوبیاں ہونا لازمی امر ہے۔ اس لیے جاہ و رفعت علم و فضل کی جانب ہمارا فطری میلان ہے۔ میں اس ہوس کو معیوب نہیں سمجھا ہاں چونکہ دل میں ضعف ہے اہل دنیا کی حرف گیریوں کا خیال قدم قدم پر دامن گیر ہوتا ہے۔
xiv) دوپہر کو ہی انہوں نے تیاریاں شروع کیں۔ حجامت بنائی۔صابن سے نہائے۔سر میں تیل ڈالا، دقت کپڑوں کی تھی۔مدت گزری انہوں نے ایک اچکن بنوائی تھی۔ان کی حالت بھی اس کی سی تھی،جیسے ذرا سی سردی یاگرمی سے انہیں زکام یا سر درد ہو جاتا تھااسی طرح وہ اچکن بھی نازک مزاج تھی۔اسے نکالا اور جھاڑ پونچھ کر رکھا۔
xv) قمر اپنے آپ کو بائرن، شیلے سے جو بھر کم نہ سمجھتے تھے۔بولے”ہمارے یہاں روحانیت کا بھی اتنا فقدان نہیں ہواکہ مغربی شاعرو سے بھیک مانگیں۔ میرا خیال ہے کم از کم اس مضموں میں ہم مغرب کو بہت کچھ سیکھا سکتے ہیں۔
xvi) اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔اتنا کچھ چل لینے کے بعد بھی اس کی طبیعت کی چونچالی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔یہاں پٹری پر چلنے والوں پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور ان میں کافی فاصلہ رہنے لگا تھا۔ اس نے بیڈ کی چھڑی کو اپنی انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو ئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی۔”اوسوری” کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
xvii) یہ ہفتے کی شام تھی۔بھر پور جاڑے کا زمانہ۔سرد اور تند ہوا کسی تیز دھات کی طرح جسم پر آ کر لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہ ہوتا تھا۔لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز تیز قدم اٹھا رہے تھےمگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی۔ جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزہ آ رہا ہو۔
xviii) اس نے اپنا رومال نکالا۔جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیراتا کہ کچھ کچھ گرد جم گئی ہو تو اڑ جائے۔پاس ہی گھاس کے ایک ٹکڑے پر بچے ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔وہ بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہےمگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے لگےاور پھر اچانک ھیند سنبھال کر، ہنستے ہوئے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے وہ گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گئے۔
xix) وہ مجھ سے کارڈ لے کر یوں چلا جیسے دنیا جہاں کی دولت سمیٹے لیے جا رہا ہے۔ میں نے کارڈ پر لکھ دیا تھا۔جبار صاحب اس کا کام کر دیجئے، بے چارہ بڑا ہی غریب آدمی ہے۔ دعائیں دے گا۔اور مجھے یقین تھا کہ کام ہو جائے گا۔داکٹروں کو صرف اتنا ہی تو دیکھنا تھا کہ آنکھ پوری طرح بجھ گئی ہے یا تھوڑی بہت رمق باقی ہے۔
xx) کپڑے تو میں نے بدل رکھے تھےالبتہ میں اپنے تیور بدلنے کی کوشش کرنے لگا ۔پھر اچانک خیال آیا کتنا چھوٹا آدمی ہوں دو پیسے یا دو روپے یا چلو دو لاکھ کی بھی بات نہیں۔ دو آنکھوں کی بات ہے اور میں جھوٹ بولے جا رہا ہوں۔ مجھے فیکے کے سامنے اعتراف کر لینا چاہیےکہ تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکا پھر میں نے دو فقرے سوچے جو مجھے فیکے کے سامنے اس انداز سے ادا کرنے تھے اسے سچی بات بھی معلوم ہو جائے اور اسے دکھ بھی نہ ہو۔
xxi) شام کی بڑھتی ہوئی اداس تاریکی میں سامنے کی ہر چیز آہستہ آہستہ دُھندلی پڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے نظریں پھر پھرا کر بغیر پلستر کی دیواروں کو دیکھنا شروع کیا جو اندھیرے میں ڈوب کر بھیانک ہوتی چلی جا رہی تھیں جیسے وہ سیاہ رنگ میں نہا گئی ہوں۔ اندھیرا اور تنہائی اس کا جی اُلٹنے لگا تو کھانسی ہوئی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
xxii) دوکان میں ہن برس رہا تھا۔مالک کے نام پر بینک میں سونے چاندی کے پہاڑ کھڑے ہو رہے تھے۔تو اسے کیا۔وہی مثل کہ بی بی عید آئی۔ جواب ملا دور موئی تجھے اپنی ٹکیا روٹی سے مطلب ۔۔۔۔اسے تو جیسے اپنے دس روپوں کے سائے میں بٹھا دیا گیا تھا۔ جہاں ضروریات زندگی کی قیمتوں کا دائرہ روز با روز تنگ ہی ہوتا جا رہا تھا۔
xxiii) شہر میں لاکھوں مکان گرے اور مینہ کی نئی صورت، دن رات دو چار بار برسے اور ہر بر اس زور سے کہ ندی نالے نکلیں۔ بالا خانے کا جودالان میرے اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے،جینے مرنے کا محل، اگرچہ گرانہیں چھت چھلنی ہو گئی۔ کہیں لگن، کہیں چلمچی، کہیں اگالدان رکھ دیا۔قلمدان کتابیں اٹھا کر خانے کی کوٹھڑی میں رکھ دیے۔ملک مرمت کی طرف متوجہ نہیں۔ کشتی نوح میں تین مہینے رہنے کا اتفاق ہوا۔اب نجات ہوئی۔نواب صاحب کی غزلیں اور تمہارے قصائد دیکھے جائے گے۔
xxiv) مر ٹھ سے آ کر دیکھا یہاں بڑی شدت ہے اور یہ حالت ہےکہ گوروں کی پاسبانی پر قناعت نہیں ہے۔لاہوری دروازے کا تھانیدار مونڈھا بچھا کر سڑک پر بیٹھتا ہے۔جو باہر سے گورے سے آنکھ بچا کر آتا ہے، اس کو پکڑ کر حوالات میں بھیج دیتا ہے۔ حاکم کی ہاں سے پانچ پانچ نید لگتے ہیں یا دو روپے جرمانہ لیا جاتا ہے۔ آٹھ دن قید رہتا ہے۔ اس کے علاوہ سب تھانوں پر حکم ہے کہ دریافت کرو کون بے ٹکٹ مقیم ہے اور کون ٹکٹ رکھتا ہے۔
xxv) میرے بادشاہ میرے پاس آئے تھے۔تمہاری خیرو عافیت ان سے معلوم ہوئی تھی۔ میر قاسم علی صاحب مجھ سے ملے۔پرسوں سے نواب مصطفٰی خان صاحب یہاں آئے ہوئی ہیں۔ ایک ملاقات ان سے ہوئی ہے۔ ابھی یہی رہیں گے،بیمار ہین،احسن اﷲ ضان معالج ہیں،فصد ہو چکی ہے،جونکیں لگ چکی ہے۔اب مہسل کی فکر ہے،سوا ان کے سب طرح کی خیرو عافیت ہے۔میں ناتواں بہت ہو گیا ہوں،گویا صاحب فراش ہوں۔
xxvi) میں ابھی تک علیل ہوں، گو پہلے کی نسبت بہت افاقہ ہے۔دعا کیجیے اﷲتعالٰی کامل صحت عطا فرمائے۔حکم اجمل خان صاحب نے دہلی سے دعا بھیجی تھی مگر اس سے بھی بہت کم افاقہ ہوا ۔کل گورداس پورے سے ایک حکیم صاحب خود بخود تشریف لے آئے تھے۔انہیں کسی سے میری علالت کا حال معلوم ہوا تھا۔دوا دے گئے ہیں جس سے فائدہ معلوم ہوتا ہے مجھے یقین ہے کہ اس دوا سے فائدہ ہو جائے گا کیونکہ جن اجزا سے یہ مرکب ہے ان میں سے ایک اخلاص بھی ہے جوان حکیم صاحب کو خودبخود میرے مکان تک لے آیا۔
xxvii) تانگوں میں بناسپتی گھوڑے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بناسپتی گھوڑا شکلو صورت میں دُم دارستارے سے ملتا ہے کیونکہ اس گھوڑے کی ساخت میں دُم زیادہ اور گھوڑا کم پایا جاتا ہے۔حرکت کے وقت اپنی دُم دبا لیتا ہے اور ضبطِ نفس سے اپنی رفتار میں ایک سنجیدہ اعتدال پیدا کر لیتا ہے تا کہ سڑک کا ہر تاریخی گڑھا اور تانگے کا ہر ہچکو لا اپنا نقش آپ پر ثبت کرتا جائے اور آپ کا ہر مسام لطف اندوز ہوتا جائے
xxviii) اب لاہور میں عام ضروریات کے کیے ہوا کی بجائے گر اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جا بجا دھوئیں اور گرد کی مہیا کرنے کے کیے مرکز کھول دیے ہیں جہاں یہ مرکبات مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔اُمید کی جاتی ہے کہ اس سے نہایت تسلی بخش نتائج برآمد ہوں گے۔
xxix) چوتھی قسم خالی طلبہ کی ہے۔یہ طلبہ کی خالص ترین قسم ہےان کا دامن کسی قسم کی آلائش سے تر نہیں ہونے پاتا۔ کتابیں امتحانات مطالعہ اور اس قسم کے خرنشے کبھی ان کی زندگی میں خلل انداز نہیں ہوتے۔ جس معصومیت کو لے کے وہ کالج پہنچتے تھے۔اسے آخر تک م،ملوث نہیں ہونے دیتے اور تعلیم نصاب اور درس ہنگاموں میں اس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جس طرح بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے۔
xxx) ہم اس دھرتی کا گز اور بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑا آئے لیکن ہمیں تو ہر چیز چپٹی ہی نظر آئی ۔دنیا سے زیادہ تو ہم گول ہیں لہ پیکینگ سے لڑھکے تو پیرس پہنچ گئے اور کوپن ہیگن سے پھسلے تو کولمبو میں آ کر رکے بلکہ جا کر تا پہنچ کر دم لیا۔دنیا کے گول ہونے پر اصرار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یقین نہ ہو تو مشرق کی طرف سے جاوٴ ،چکر کاٹ کر مغرب کی طرف سے پھر اپنے تھان پر آکر کھڑے ہو گے۔اس میں ہمیں ہمیشہ ایک بد یہی خطرہ نظر آیا کہ کہیں گولائی کی طرف رینگتے ہوئے نیچے نہ گر پڑے کیونکہ ہم کوئی چھپکلی تھوڑا ہی ہیں۔
xxxi) رشک آتا ہے کہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں کہ کبھی قید مقام سے نئی گزرتے۔گوجرانوالہ تک گئے بھی تو دوسرے دن واپس لوٹ آئے۔ہم سے پوچھیے جو مزہ اور تھرململ کا کرتا پہن، قوام والا پان کلے میں دبا،ٹانگ پر ٹانگ دھرے گھر میں داستان امیر حمزہ پڑھنے اور لمبی تان کر سونے میں ہے وہ جگہ جگہ مارے مارے پھرنے میں کہاں، قیام کی راحتیں اور برکتیں کہاں تک بیاں کی جائیں، نہ پاسپورٹ کی فکر نہ ویزے کے لیے بھاگ دوڑ ۔
xxxii) آخری ایک مختصر سی اور سنجیدہ سی کنووکیشن میں ہم نے انھیں اعزاری ڈاکٹر کی ڈگری پیش کی اور انھوں نے ہمیں ڈاکٹریٹ کے خریطے سے نوازا انھیں اتنی دواوٴں کے نام یاد ہیں اور ا ن کے نسخے کہ ڈاکٹر بھی ان کے تلمذ میں فخر محسوس کریں۔لہذا ان کی ڈاکٹری بے فل و غش چل جاتی ہے۔ ہم میڈیکل ڈاکٹروں کے سامنےعلم و ٕادب کے ڈاکٹر بنتے ہیں اور کوئی ادب و فلسفہ کا سوال کر بیٹھے تو میڈیکل ڈاکٹر ہو نے کا عذا کرتے ہیں۔ایک بزرگ نے دونوں طرح کے سوالات شروع کر دیے تو ہمیں ہو میو پیتھی میں امان ملی اور ہمیں ان کے فضائل پر تقریر کرنی پڑی۔
Dear All, If there is any mistake in educational material or you have something really good to advise for the betterment of education, Please Contact Us